صحافی کامران یوسف نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم کو موصول ہونے والے دھمکی آمیز خط کے حوالے سے پاکستان کے خارجی سلامتی کے حکام نے لا علمی کا اظہار کیا ہے جب کہ دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز کے پروگرام “نقطہ نظر” میں گفتگو کرتے ہوئے کامران یوسف نے کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے 27 مارچ کے جلسے میں جس دھمکی آمیز خط کا دعویٰ کیا گیا تھا انہوں نے اس حوالے سے متعلقہ حکام کو سوالنامہ بھجوایا۔ اس پر پاکستان کی خارجی سلامتی کے حکام نے کہا کہ ابھی تک کوئی ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جس میں یہ کہا جائے کہ اس میں کوئی بیرونی سازش شامل ہے، یہ بہت حیران کن ہے کہ اس طرح کا مراسلہ اگر وزارت خارجہ کو موصول ہوا ہے اور انہیں اس کا پتا نہیں ہے، ایسا ممکن نہیں ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ کسی ملک کی طرف سے ایسا کوئی مراسلہ آیا ہو اور اس کا مطلب غلط سمجھا گیا ہو۔
کامران یوسف کے مطابق یہ خط کسی پاکستانی سفارتکار کا بھی ہوسکتا ہے، ہوسکتا ہے کہ حکومت نے پاکستان کے کسی سفارت خانے سے رائے مانگی ہو اور ادھر سے یہ خط لکھا گیا ہو۔ جس وقت وزیر اعظم کے دورہ روس والا معاملہ چل رہا تھا تو ایک خاص ملک میں موجود سفیر سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی رائے دیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ جس وقت وزیر اعظم روس کا دورہ کرنے والے تھے تو اس وقت امریکہ کے مشیر قومی سلامتی نے پاکستانی ہم منصب سے رابطہ کرکے اس دورے سے روکنے کی کوشش کی تھی، اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ امریکہ نے سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شاید پاکستان نے کسی ملک کی کیبل پکڑی ہے جس کے اندر یہ باتیں سامنے آئی ہیں۔